Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

ایک بار دو بار پھر نامعلوم کتنی بار وہ عادلہ کو کالز کرتا رہا تھا ،دوسری طرف اس کا موبائل آف مل رہا تھا اور یہی وہ اس سے اسپیکٹ کرتا تھا تب ہی اس کی بھرپور طریقے سے مار لگائی تھی معمولی سا لحاظ ذرا سی مروت بھی اس نے نہیں برتی تھی۔ اس لئے کہ وہ اس کی بات مانے اور پری کو اس کی بتائی ہوئی جگہ پر لے آئے اور اب وہ آدھی رات تک محو انتظار رہا تھا ،ہر آہٹ پر پلٹا تھا۔
ہر آواز پر چونکا تھا مگر غصے کے ساتھ ساتھ اسے شدید ترین حیرت تھی۔ اس نے محسوس کیا تھا وہ پری کو ضرور لائے گی لیکن وہ دھوکا دے گئی تھی۔
”تم نے وارننگ کے باوجود بھی مجھے چیٹ کیا ،میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں وہ حال کروں گا کہ نہ زندہ رہو گی ،نہ ہی مردہ۔“ وہ اسی کمرے میں ٹہل رہا تھا جہاں کچھ دنوں قبل عادلہ اس کی نفسیاتی بربریت کا شکار بنی تھی وہ تب سے اب اس کمرے میں آیا تھا اور وہ تمام مناظر اس کی ذہن کی اسکرین پر روشن تھے جس میں عادلہ اس کی ٹھوکروں ،لاتوں اور دھمکیوں کا نشانہ بنی تھی۔


”بہت اسمارٹ سمجھتی ہے خود کو کمینی لڑکی! تم گھر میں کیا دنیا کے کسی کونے میں مجھ سے نہیں چھپ سکتی ہو۔“ وہ ہتھیلی پر مکا مارتا ہوا بڑبڑایا۔
”سیل فون آف کرکے سمجھتی ہے ،مجھ سے پیچھا چھڑا لیا ہے تم نے؟“ اس نے قریب رکھی ٹیبل کو ٹھوکر ماری تھی۔ ٹیبل گر گئی تھی اور اس کے نیچے پنک کلر کا موبائل پڑا تھا اس نے جھک کر موبائل اٹھایا چیک کیا وہ چارج نہ تھا ،اسے یاد آیا وہ موبائل عادلہ کا تھا جو نامعلوم کب وہاں گر گیا تھا۔
اس نے ہاتھ پکڑ کر اس کو زور دار دھکا دیا تھا وہ اچانک دھکا لگنے سے بری طرح دیوار سے ٹکراکر گری تھی۔ اس کے ہاتھ سے پرس چھوٹ گیا تھا اور پرس میں موجود سارا سامان کارپٹ پر بکھر گیا تھا اور اسی وقت وہ موبائل بھی ٹیبل کے نیچے چلا گیا ہوگا۔
”آئی سی یہ بات تھی ،میری کالز ریسیو نہ کرنے کی لیکن فون پر مجھ سے رابطہ کر سکتی تھی وہ۔“ ایک لمحے کو ٹھنڈا ہو کر پھر بھڑکا تھا۔
”آ رہا ہوں میں تم سے ،تمہارے گھر ہی حساب کتاب کرنے کیلئے۔ تم مجھ سے بچ نہیں سکتی ہو ایڈیٹ۔“ وہ وہاں سے نکلا تو مسز عابدی باہر ہی مل گئی تھیں بہت فکر مند سی۔
”شیری! صباحت بھابی کی کال آئی ہے عادلہ سیڑھیوں سے گر گئی ہے ،آپ چل رہے ہیں یا میں شوفر کے ساتھ جاؤں۔“
”میں چل رہا ہوں ممی! اس اسٹوپڈ کو گرنا ہی آتا ہے صرف۔“
###
”دادی جان! آپ کو وہ واقعہ یاد ہے جب ہم بہت چھوٹے تھے اور پارس بے حد ڈرپوک ہوا کرتی تھی ،اسٹور روم میں ،میں نے مشہور کیا ہوا تھا کہ وہاں بھوت ہے اور اس کی بھوت سے تو جان جاتی تھی۔
“ وہ دادی جان کے دوپٹے میں لیس لگاتی پری کو دیکھتا ہا چھیڑ رہا تھا۔
”ایک رات کو تم نے میری بچی کو اس اسٹور روم میں بند کرکے لائٹ بند کر دی تھی اور یہ خوف کے مارے چیختی ہوئی بے ہوش ہو گئی تھی۔“
”آدھا گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا یہ محترمہ حواس گم کر بیٹھی تھیں اور ڈیڈ نے اس رات میری خاطر مدارت کس قدر دل کھول کر کی تھی،کئی گھنٹوں تک اسٹور روم میں بند رکھا تھا۔
”وہ تو مجھے معلوم ہوا تو میں تمہیں وہاں سے نکال کر لے آئی تھی ،بڑی مشکل سے فراز کو سمجھایا تھا وگرنہ ساری رات تمہیں وہیں بند رکھنے کا ارادہ تھا۔ پری سے وہ شروع سے ہی بے حد محبت کرتا ہے۔“
”شکریہ دادی جان! اس رات مجھے بچانے کا ،خیر پارس! تم تو آج بھی تنہا اسٹور روم میں جاتے ہوئے ڈرتی ہو… ہے نا؟“ وہ دادی کے قریب نیم دراز اس سے مخاطب ہوا تھا۔
”کیوں پوچھ رہے ہیں پھر دوبارہ مجھے وہاں اندھیرے میں لاکڈ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں آپ؟“ اس نے نفاست سے لیس لگاتے ہوئے پوچھا۔
”میں تمہیں لاکڈ کروں گا تم اب بھی رو رو کر بے ہوش جاؤ گی؟“
”اب ایسا کرکے تو دکھاؤ تم ذرا پھر دیکھنا ماضی کی مار یاد نہ کروا دی تم کو۔ اب تو سنجیدہ ہو جاؤ کس بات کی شوخیاں بھر رہی ہیں تم میں اور یہ بات بات پر پری کو تنگ کرنا بند کر دو اچھا نہیں لگتا۔
“ وہ پان چباتے ہوئے پری کی گھبراہٹ اور اس کی محویت محسوس کر رہی تھیں ،ڈانٹتے ہوئے گویا ہوئیں۔
”یہ ڈرنا چھوڑ دے میں تنگ کرنا چھوڑ دوں گا اس کو۔“ وہ پاؤں ہلاتے ہوئے مزے سے کہہ رہا تھا۔
”دادی جان! میں آپ کو چائے لا دیتی ہوں۔“ وہ اٹھتے ہوئے ان سے مخاطب ہوئی طغرل کی نگاہوں سے بھاگنے کا یہی طریقہ سوچا تھا۔
اس نے چائے بنا کر ملازمہ کے ہاتھ بھیج دی تھی اور خود عادلہ کے کمرے میں چلی آئی تھی حسب عادت وہ کھوئی کھوئی بیٹھی تھی۔
اس کی رنگت زرد ہوتی جا رہی تھی وہ بے حد خوف زدہ رہنے لگی تھی معمولی سی آہٹ پر وہ خوف زدہ ہو کر دروازے کی طرف دیکھنے لگتی تھی ،تنہائی میں کئی مرتبہ روتے دیکھا تھا اسے اور پوچھنے پر صرف یہی کہتی کہ درد ہو رہا ہے۔ عائزہ آج کل فاخر کے ساتھ ہوتی تھی ،شادی پر فاخر کے دوست دعوت نہ کر سکے تھے اب ہر روز ہی وہ کہیں نہ کہیں لنچ و ڈنر پر انوائٹ ہوتے تھے اس مصروفیت میں وہ عادلہ کو بھی ٹائم نہ دے پا رہی تھی۔
ایسے میں اس کی یہی کوشش ہوتی وہ عادلہ کو تنہا نہ رہنے دے۔
”عادلہ! کچھ کھانے پینے کو دل چاہ رہا ہے تمہارا؟“ وہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے گویا ہوئی جبکہ وہ کنفیوز ہو گئی تھی۔
”نہیں ،میرا دل نہیں چاہ رہا۔ تم جاؤ میں آرام کروں گی۔“ اس نے لیٹتے ہوئے خود پر رضائی کھینچتے ہوئے کہا۔
”تم آرام کرو میں تمہارے پاس بیٹھی ہوئی ہوں۔
”میڈیسن کھا کر مجھے فوراً نیند آ جاتی ہے پھر تم کیوں بیٹھی ہو؟“
”عادلہ! مجھے ایسا محسوس کیوں ہو رہا ہے جیسے تم مجھ سے بھاگ رہی ہو ،جب بھی میں تمہارے سامنے آتی ہوں تمہارے چہرے پر کچھ عجیب سے ایکسپریشن ہوتے ہیں۔ تمہاری آنکھوں میں بھی ایسا ہی تاثر ہوتا ہے کیا مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے؟ کیا تم مجھ سے ناراض ہو؟“ وہ کچھ دنوں سے نوٹ کرنے والی فیلنگ ظاہر کرنے لگی۔
”نہیں تم سے کیا غلطی ہو گی پر! جو میں ناراض ہوں گی ایسا کچھ نہیں ہے تمہیں غلط فہمی ہو رہی ہے۔ میں تم سے بالکل بھی خفا نہیں ہوں۔“ اسی لمحے ملازمہ نے مسز عابدی اور شیری کے آنے کی اطلاع دی تھی۔
”اوہ گڈ! اب تم جلدی ٹھیک ہو جاؤ گی ،آنٹی کے ساتھ شیری بھائی بھی تو آئے ہیں۔“ وہ اٹھتے ہوئے شوخی سے کہہ رہی تھی۔
”پری ان سے کہہ دینا میں سو رہی ہوں ،ابھی جلد بیدار نہیں ہوں گی۔
“ اس نے رضائی چہرے تک اوڑھ لی تھی ،پری کو اس کی آواز کانپتی ہوئی محسوس ہوئی مگر دوسرے لمحے ہی اسے وہم لگا وہ چلی گئی۔
دروازہ بند ہونے کی آواز سن کر اس نے چہرے سے رضائی ہٹائی تھی۔ اس کا چہرہ پسینے میں شرابور خطرناک حد تک زرد ہو گیا تھا۔ بدن سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا ،دل کے دھڑکنے کی صدا سماعتوں تک آ رہی تھی۔
”کیا کروں ،کہاں جاؤں کس طرح اس حیوان سے چھپوں؟ وہ کسی اچھی نیت سے یہاں نہیں آیا ہے ،اس نے کہا تھا مجھ کو دھوکہ مت دینا لیکن میں ایسا نہیں کرتی تو کیا کرتی؟ میرے پاس کوئی آپشن ہی نہ تھا۔
“ باہر سے بھاری قدموں کی آوازیں آ رہی تھیں وہ ان قدموں کی دھمک کو بخوبی پہچانتی تھی۔ یہ اسی عفریت کے قدموں کی آوازیں تھیں ،وہ سراسیمہ ہو کر اٹھی تھی تاکہ دروازہ لاک کر سکے تب ہی وہ آن وارد ہوا۔
”کیا ناٹک کیا ہے تم نے؟“ اس نے دروازہ لاکڈ کرتے ہوئے بھرپور طنزیہ انداز میں کہا تھا۔
”کس قد گری ہوئی لڑکی ہو تم ،جگہ دیکھتی ہو نہ ماحول اور گر جاتی ہو۔
”یہ یہ دروازہ کیوں لاکڈ کیا ہے تم نے…؟“
”میں نے تمہیں کہا تھا ناں دھوکہ مت دینا ،سزا تو اب ملے گی تم کو۔“
###
محبت ترے جلوے کتنے رنگا رنگ جلوے ہیں
کہیں محسوس ہوتی ہے، کہیں معلوم ہوتی ہے
جوانی مٹ گئی لیکن خلش درد محبت کی
جہاں معلوم ہوتی تھی وہیں معلوم ہوتی ہے
عادلہ ابھی خود کو پوری طرح سنبھال بھی نہ پائی تھی کہ وہ کسی طوفان کی مانند آن واحد میں اس کے قریب پہنچ گیا تھا۔
”تم سے کہا تھا نہ کوئی چالاکی مت کرنا لیکن تم اپنی اصلیت دکھانے سے باز نہ آئیں اور گرنے کا ڈرامہ کرکے بیٹھ گئیں اور سوچا کہ میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا معاف کر دوں گا؟“ اس نے بے رحمی سے اس کے بال مٹھی میں جکڑتے غضبناک لہجے میں کہا تو وہ مارے خوف و دہشت کے کچھ بھی نہ کہہ سکی۔
”مگر میں معاف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ،میں تمہارے تصور سے بھی زیادہ ظالم ہوں بولو ،کیوں کیا تم نے ایسا؟“ درد کی شدت سے عادلہ کا چہرہ بگڑنے لگا تو وہ کراہ کر بولی۔
”قسم سے میں جان بوجھ کر نہیں گری ،میرا پاؤں سلپ ہو گیا تھا۔“
”شٹ اپ… جھوٹ بول کر تم بچ نہیں سکوں گی مجھ سے۔“ اس نے جھٹکے سے اس کے بال چھوڑتے ہوئے کہا۔ عادلہ نے بے ساختہ اپنے چکراتے ہوئے سر پر ہاتھ رکھا اور بیٹھتی چلی گئی۔
”اب میں تمہیں کس طرح یقین دلاؤں شیری! بتاؤ مجھے؟“ اس نے روتے ہوئے کہا شیری ہونٹ بھینچے چند ثانیے اسے گھورتا رہا۔
”سچ مچ تمہارا پاؤں سلپ ہوا تھا؟“ اس کا انداز الجھا ہوا تھا۔
”ہاں ،میں قسم کھا کر کہہ رہی ہوں ،میرا پاؤں پھسل گیا تھا۔“
”اگر ایسا نہ ہوتا تو تم پری کو میرے پاس لے آتیں؟“ وہ فوری جواب نہ دے سکی چند لمحوں بعد اثبات میں گردن ہلا دی۔
”ہوں…“ وہ اس کے قریب بیٹھ کر سوچتے ہوئے گویا ہوا۔
”تم کو ایک موقع اور دینا چاہئے ،چلو تمہیں ایک موقع اور دیا لیکن اس بار تم نے پھر ایسی کوئی حرکت کرنے کی کوشش کی تو…“
”نہیں نہیں ،میں ایسا کچھ نہیں کروں گی ،یقین کرو میرا۔
“ وہ ہاتھ جوڑ کر خوشامدی لہجے میں گویا ہوئی۔
”اوکے میں تمہیں آخری موقع دے رہا ہوں ،کام کیا تو واہ واہ اور نہ کیا تو شوٹ کر دوں گا تمہیں ،سمجھیں۔“ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا تمسخرانہ لہجے میں گویا ہوا۔
”میں… میں پری کو لے آؤں گی… مگر…“
”شٹ اپ ،کوئی فضول بکواس مت کرنا ،میں کوئی ایکسکیوز نہیں سنوں گا۔“
”میں اس حالت میں گھر سے باہر کس طرح نکل سکتی ہوں۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟“ اس کی پیشانی پر شکنیں در آئیں۔
”میرے ٹھیک ہونے تک آپ کو انتظار کرنا ہوگا۔“
”پھر تو میں ساری زندگی انتظار ہی کرتا رہ جاؤں گا۔ تم کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو گی ،مجھے بے وقوف بنانے کی کوشش مت کرو۔“
”ایسا نہیں ہوگا صرف چند دن چاہئیں مجھے پلیز ،میرا یقین کرو۔“
”دیکھتا ہوں تمہارے یہ چند دن ،اگر جلد پورے نہ ہوئے تو میں تمہاری زندگی پوری کر دوں گا۔“ وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

   1
0 Comments